
| وابستہ ہوگئے ہیں کسی کہکشاں سے ہم پھیلی سخن کی روشنی گزرے جہاں سے ہم |
|
|
| رکھتے ہیں اپنے عشق کی ہم بھی سپر حضور ڈرتے نہیں ہیں آپ کے تیر و کماں سے ہم |
|
|
| سب کچھ ہےدسترس میں مگر جانتے ہیں خوب جائیں گے ہاتھ جھاڑ کے اک دن یہاں سے ہم |
|
|
| شوقِ سفر نے کیا نہ دکھایا ہمیں مگر واقف کہاں ہیں آج بھی کون و مکاں سے ہم |
|
|
| منزل ہے اب بھی دور یہ ہم کیسے مان لیں اب تو گزر کے آگئے منزل نشاں سے ہم |
|
|
| رشتہ بہت پُرانا ہے دونوں کا اس لیے واقف ہے ہم سے آسماں اور آسماں سے ہم |
|
|
| اک شخصِ بے وفا کے لیے چاہیے، کہو اشعؔر تمہارا طرزِ وفا دیں کہاں سے ہم |
|
|
No comments:
Post a Comment