وابستہ ہوگئے ہیں کسی کہکشاں سے ہم پھیلی سخن کی روشنی گزرے جہاں سے ہم |
|
رکھتے ہیں اپنے عشق کی ہم بھی سپر حضور ڈرتے نہیں ہیں آپ کے تیر و کماں سے ہم |
|
سب کچھ ہےدسترس میں مگر جانتے ہیں خوب جائیں گے ہاتھ جھاڑ کے اک دن یہاں سے ہم |
|
شوقِ سفر نے کیا نہ دکھایا ہمیں مگر واقف کہاں ہیں آج بھی کون و مکاں سے ہم |
|
منزل ہے اب بھی دور یہ ہم کیسے مان لیں اب تو گزر کے آگئے منزل نشاں سے ہم |
|
رشتہ بہت پُرانا ہے دونوں کا اس لیے واقف ہے ہم سے آسماں اور آسماں سے ہم |
|
اک شخصِ بے وفا کے لیے چاہیے، کہو اشعؔر تمہارا طرزِ وفا دیں کہاں سے ہم |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
وابستہ ہوگئے ہیں کسی کہکشاں سے ہم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment