اگرچہ جانے ہیں تیرا نشاں نشاں آنکھیں تلاش کرتی ہیں پھر بھی کہاں کہاں آنکھیں |
|
جہاں جہاں سے تمہیں چھو کے آئی بادِ نسیم گئی ہیں دوڑ کے میری وہاں وہاں آنکھیں |
|
یہ چل کے آئی ہیں بازارِ مصر میں کہ یہاں تری مثال کو ڈھونڈھیں دکاں دکاں آنکھیں |
|
تمام رات وہ روئے تھے یاد کرکے مجھے بتا ہی دیتی ہیں اُن کی دھواں دھواں آنکھیں |
|
لبوں پہ آئی نہ شوقِ طلب کی بات مگر لگی ہیں آپ کی اکثر زباں زباں آنکھیں |
|
ہر ایک چہرے میں تم ہی اِنہیں نظر آئے جہان بھر میں گئی ہیں جہاں جہاں آنکھیں |
|
تمہیں بسا کے نگاہوں میں یہ ہوا اشعؔر ہر اک سے رکھنا پڑی ہیں نہاں نہاں آنکھیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
اگرچہ جانے ہیں تیرا نشاں نشاں آنکھیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment