
| اگرچہ جانے ہیں تیرا نشاں نشاں آنکھیں تلاش کرتی ہیں پھر بھی کہاں کہاں آنکھیں |
|
|
| جہاں جہاں سے تمہیں چھو کے آئی بادِ نسیم گئی ہیں دوڑ کے میری وہاں وہاں آنکھیں |
|
|
| یہ چل کے آئی ہیں بازارِ مصر میں کہ یہاں تری مثال کو ڈھونڈھیں دکاں دکاں آنکھیں |
|
|
| تمام رات وہ روئے تھے یاد کرکے مجھے بتا ہی دیتی ہیں اُن کی دھواں دھواں آنکھیں |
|
|
| لبوں پہ آئی نہ شوقِ طلب کی بات مگر لگی ہیں آپ کی اکثر زباں زباں آنکھیں |
|
|
| ہر ایک چہرے میں تم ہی اِنہیں نظر آئے جہان بھر میں گئی ہیں جہاں جہاں آنکھیں |
|
|
| تمہیں بسا کے نگاہوں میں یہ ہوا اشعؔر ہر اک سے رکھنا پڑی ہیں نہاں نہاں آنکھیں |
|
|
No comments:
Post a Comment