سلام و کلام |
عرضِ مُصنّف |
قارئینِ کرام، سلام۔
میرا آبائی تعلّق ملیح آباد سے ہے۔ میرے والدِ ماجد مرحوم سیّد مُحمّد شریف صاحب ایک معروف شاعر تھے۔ وہ “اثر” تخلّص فرماتے تھے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں: ۔۔
اُنہیں ہر ہر قدم پر اس لیے آواز دیتا ہوں نہ جانے کس قدم پر موت کا پیغام آجائے
میرے بڑے بھائی، سیّد محمّد حنیف اخگر ملیح آبادی، جنہوں نے میری پرورش و تربیت انتہائی مُحبّت و نگہبانی کے ساتھ فرمائی، آج کل بے حد علیل ہیں۔ اللہ ربّ العزّت سے التجا ہے کہ اُن کا سایہ ہم سب بھائی بہنوں اور ان کے بچّوں پر تا دیر قائم رکھے۔ آمین۔
آپ حضرات سے بھی ملتمس ہوں کہ دعا فرمائیے، کہ خدائے بزرگ ان کو صحتِ عاجلہ و کاملہ عطا فرمائے۔ آمین، ثُمّہ آمین۔
جناب حنیف اخگر صاحب عصرِ حاضر کے مقبول ترین سخنوروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں۔ اور یہ بھی میرے لیے باعثِ مُسرّت ہے کہ میری بنیادی تربیتِ شعری میرے اپنے ادبی گھرانہِ میں ہوئی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے پہلا شعر ایّامِ طالب علمی میں ہی کہا تھا۔ جس کو ، اب تک، چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ پہلا شعر گھر کے کسی بُزرگ کو سنانے کی جراءت تو نہیں کرسکتا تھا، لیکن یہ ضرور چاہتا تھا کہ کسی صاحبِ نظر سے اس شعر پر رائے حاصل کی جائے۔
اس کوشش نے ہی مُجھے یہ اعتماد مہیّا کیا کہ میں اگر اسی انداز سے مشقِ سُخن جاری رکھوں تو شاید کسی سے اصلاح لیے بغیر بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ وہ پہلا شعر یہ تھا: ۔۔
ترے خیال کی دنیا سجا رہا ہوں میں بس اک کلی سے گلستاں بنا رہا ہوں میں
اگرچہ میں نے آج تک باقاعدہ کسی استاد کی شاگردی اختیار نہیں کی، لیکن یہ ایک مُسلِّمہ حقیقت ہے کہ ہم ہر روز اہلِ فکر و نظر کی صحبتوں میں کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھتے رہتے ہیں۔
کتابوں کا مطالعہ ہمیں مُختلف النّوع جہتوں سے رُوشناس کراتا رہتا ہے۔ ادبی و شعری محافل درسگاہوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم اپنی تخلیقات پر جب بھی نظرِ ثانی کرتے ہیں تو قبول و رد کے روّیوں کو کارفرما دیکھتے ہیں۔ کسی بھی قلمکار کی زندگی میں یہ عمل تا دمِ مرگ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس لیے کہ جس دن کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مُکمّل ہے، یا اُسے اب اصلاح کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اُس دن سے وہ علم و آگہی کے دروازے اپنے اپ پر بند کرلیتا ہے۔ اسی لیے وہ ناصح جو کہیں میرے اندر موجود ہے مجھ سے اکثر کہتا رہتا ہے:۔
فن کی معراج چاہتے ہو اگر تم در ِ ذہن کو کھُلا رکھنا
میرا پہلا مجموعہء کلام “تلخ و شیریں” کے نام سے 2002 ء میں شائع ہوا۔ اور دوسرا مجموعہء غزلیات بَنام “رختِ زندگی” 2006ء میں۔
ان دونوں کتابوں کے لیے تخلیقات کا انتخاب مرحوم مُحسِن بھوپالی صاحب نے کیا تھا۔ اور اُن دونوں کتابوں کا دیباچہ بھی مُحترم مُحسن بھوپالی صاحب نے ہی تحریر فرما کر مجھے ممنونِ احسان فرمایا تھا۔ افسوس! کہ وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ذاتِ باری تعالٰی محسن بھائی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔
میری دونوں کتابوں پر جن اساتذہء کرام کی تقاریظ آپ دیکھ چکے ہیں یا دیکھ سکتے ہیں، اور جن کی بیش بہا آراء نے اس ناچیز کی تخلیقات کو لائقِ مطالعہ بنادیا، ان کے اسمائے گرامی ہیں:۔۔
ڈاکٹرفرمان فتح پوری، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، پروفیسر سحر انصاری، جناب مشفق خواجہ، ڈاکٹر فہیم اعظمی، جناب محسن بھوپالی، جناب آفاق صدّیقی، پروفیسر جاذب قریشی، جناب راغب مُراد آبادی، جناب سیّد حنیف اخگر، جناب افتخار حیدر، جناب کرامت اللہ غوری، اور محترمہ عابدہ کرامت۔
میں ان تمام فنکارانِ شعر و ادب کا تہہ ء دل سے مشکور ہوں۔
میرا تیسرا مجموعہء کلام، جس کا نام “رہگزارِ غزل” ہے، فروری 2009ء مین مَنَصّہء شُہُوُد پر آچکا ہے۔ اور اس وقت ایک ملٹی میڈیا ویب کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔
رہگزار غزل کیلیے میں نے اس بار محترم و برادرقمر وارثی صاحب اور پروفیسر آفاق صدّیقی صاحب کو انتخابِ غزلیات کی زحمت دی۔ اور میں اِن کا انتہائی شکر گزار ہوں، کہ عدیم الفرصتی کے باوجود انہوں نے نہایت دیدہ ریزی سے اپنے سرمایہء وقت کو صرف کرتے ہوئے اس کام کو سرانجام پہنچایا۔
جن اساتذہء کرام اور صاحبانِ فکرونظر نے اپنی تقاریظ اور انمول آراء سے رہگزارِ غزل کو مُزیّن فرمایا، ان کے اسماء مُنوّر ہیں: ۔۔
پروفیسر سحر انصاری، جناب راغب مُراد آبادی، پروفیسر آفاق صدّیقی، ڈاکٹر مظہر حامد، محترم سیّد محمّد حنیف اخگر ملیح آبادی، اور محترم ماجد خلیل صاحب۔
میں ان سب بزرگوں کا فرداً فرداً نہایت ہی ممنون و مشکور ہوں۔
علاوہ ازیں، میں ان تمام حضرات و خواتین کا بھی تہہء دل سے مشکور ہوں، جو اس رہگزارِ غزل کی کتابتء آلی، طباعت و اشاعت کے مراحل میں میرے معاون اور ہمقدم رہے۔
خواتین و حضرات! ۔۔
اللہ تعالیٰ نے مُجھے لاکھوں دینی و دنیوی نعمتوں کے ساتھ ایک مُحبّت کرنے والی شریکِ حیات سے دو بیٹیاں اور چار بیٹے عطا فرمائے۔ اپنے چاروں بیٹوں کو دیکھ کر یہ خوشی ہوتی تھی کہ میرا آخری سفر انہی کے کاندھوں پر طے ہوگا۔ لیکن میرا سب سے بڑا بیٹا 2003ء میں کار کے ایک انتہائی اندوہناک حادثہ میں مجھ سے بچھڑ گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے بیٹے دانش مرحوم کو شہادت کا درجہ عطا فرمائیں۔ اور اس کی شہادت کو میری نجات کا ذریعہ بنادیں۔ آمین۔
اگر زندگی ہے تو اتنے بڑے غم کے بعد بھی انسان جینے پر مجبور ہوتا ہے۔ ربّ العزّت اگر غم دیتے ہیں تو غم کو سہہ جانے کی قُوّت و اسباب بھی وہی پیدا فرماتے ہیں۔ ورنہ لوگ احساسِ و شدّتِ غم سے پاگل ہوجائیں، یا دیواروں سے سر ٹکرا کر خود کو ختم کرلیں ۔۔۔۔۔
دکھ تیرا بڑا ہے مگر اشعر یہ ذرا دیکھ جو صبر کا احسان ہے وہ کتنا بڑا ہے
پھر یوں ہوا کہ شاعری مُجھے غم و آلام سے فرار کی راہیں سجُھاتی رہی۔ نتیجتاً 2006ء میں دوسرا مجموعہ ء غزلیات، “رختِ زندگی” کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور اب 2009ء میں یہ تیسرا مجموعہ بَنام “ رہگزارِ غزل” آپ کے سامنے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہی کتاب میری آخری کتاب ہو۔ لیکن یہ امکان بھی بعید از قیاس نہیں کہ اگر زندگی رہی تو قلم کا سفر بھی جاری ہی رہے گا۔ اس لیے کہ انسان کو مُکمّل تسکین کی منزل ایک مخُتصر سی زندگی میں کہاں حاصل ہوتی ۔ہے۔۔۔۔
مانا کہ میکدہ سے بہت دور تو نہیں لیکن ابھی تلک لبِ ساغر نہیں ہوں میں
اس کے علاوہ یہ بھی ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ جب تک تارِ نفس سلامت رہے کہاں کوئی شخص آرزوِئوں اور خواہشات کی زنجیروں سے آزاد ہوسکتا ہے۔۔۔۔
اگرچہ آخری منزل میں ہیں سفر کی مگر بڑا ہُجوُمِ تمنّا دلِ تباہ میں ہے
پیارے قارئینِ کرام، خواتین و حضرات، یہ گفتگو سمیٹتے ہوئے مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر اس کلام کا ایک مصرع بھی آپ کے دل کو چھوگیا تو میں سمجھوں گا کہ میرے زخموں کو مرہم بھرے پھائے مُیسّر آگئے۔ اگر آپ کا دل چاہے تو مجھے آپ اپنی رائے سے استفادہ کا موقع ضرور مرحمت فرمائیے گا۔
آپ اس ملٹی میڈیا ویب کتاب کے ہر صفحہ پر دیے گئے تبصرہ، “کمینٹس” کی سہولت کو بھی باآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔
شکریہ!۔۔
آپ کا دعاگو اور دعاجو
سیّد محمّد مُنیف اشعر ملیح آبادی ۔ "تلخ و شیریں" کا سلام و کلام پڑھنے کے لیے یہاں کلک کرسکتے ہیں۔ رختِ زندگی" کا سلام و کلام پڑھنے کے لیے یہاں کلک کرسکتے ہیں۔۔" |
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Sunday, April 12, 2009
سلام و کلام - عرض مصنّف
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment