نُدرَتِ خیال |
[منتخب اشعار] |
رہگزارِ غزل |
برائے نعتِ نبی حرف مل ہی جاتے تمام |
| قلم بھی کاش مرے ساتھ باوضو ہوتا |
|
|
| عطا ہوا ہے کچھ ایسا مجھے شعورِ سُخن |
| کہ مجھ سے ہوگئی منسوب رہگُزارِ غزل |
دُکھ تیرا بڑا ہے مگر اشعر یہ ذرا دیکھ |
| جو صبر کا احسان ہے وہ کتنا بڑا ہے |
|
|
| رہتی ہے نظر سینے کے ہر داغ پہ جاناں |
| ہر لمحہ تجھے لختِ جگر دیکھ رہا ہوں |
|
|
| ہم نے تو دیکھا یہی ہے ہجرتوں کے درمیاں |
| راستے ہی راستے ہیں اپنا گھر کوئی نہیں |
|
|
| چلو کہ رنگِ بہاراں کا لطف دیس میں ہے |
| غبارِ دشت میں کیا جشنِ رنگ و بو کرنا |
|
|
| میں تو مر کے مٹ ہی جاتا پر خدا کا شکرہے |
| شاعری کے رُوپ میں نقشِ قلم رہ جائے گا |
|
|
| کبھی کبھی درِ آقا کو چومنے کے لیے |
| ہمیں بھی فخر ہے کہ ہم بھی بلائے جاتے ہیں |
|
|
| یہ مے کا چھوڑنا بے سُود ہی رہا کہ ہمیں |
| وہ اپنی آنکھوں سے اب بھی پلائے جاتے ہیں |
|
|
| جا چکا وہ پر اس کے آنے پر |
| جو ملی تھی خوشی نہیں جاتی |
|
|
| کلام حضرتِ اشعر کا نام ہے کیا خوُب |
| چلے چلیں شعراء یہ ہے رہگزارِ غزل |
|
|



No comments:
Post a Comment