خزاں میں سایۂ برگِ شجر نہیں ہوتا شکستہ دل کا کوئی چارہ گر نہیں ہوتا |
|
زمانہ ہوگیا تنہا ہوں میں مگر اب تو خود اپنے ساتھ بھی لمحہ بسر نہیں ہوتا |
|
میں کہہ تو دیتا تجھے چارہ گر مگر تجھ سے کوئی علاجِ غمِ چشمِ تر نہیں ہوتا |
|
اِدھر جو رہتا ہے شب بھر غنیمِ خوابِ سکوں وہ درد شام ڈھلے کیوں اُدھر نہیں ہوتا |
|
غلط ہے اس سے اُمّیدِ خیالِ دل کوئی جو پتّھروں میں رہے، شیشہ گر نہیں ہوتا |
|
جو اُن کی سَمت ہی جائے نہ جانبِ مقتل اب ایسی راہ پہ ہم سے سفر نہیں ہوتا |
|
کسی کے درد کی سوغات ہے یہ سب اشعؔر وگرنہ تیرے سُخن میں ہُنر نہیں ہوتا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
خزاں میں سایۂ برگِ شجر نہیں ہوتا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment