جو علم دوست بھی اور باہنر بھی ہوتا ہے مرےخیال مِیں اہلِ نظر بھی ہوتا ہے |
|
کسی بھی نام سے تم اس کو جانتے ہو مگر جو سایہ دیتا ہے سب کو شجر بھی ہوتا ہے |
|
دعائے قربتِ منزل بھی خوب ہےلیکن مُسافتوں کا مداوا سفر بھی ہوتا ہے |
|
اب اس کے سائے میں ٹھنڈک نہیں تو حیرت کیا کوئی نہ کوئی شجر بے ثمر بھی ہوتا ہے |
|
وہ جس پہ چلتے رہو اور تھکن نہ ہو محسوس وہ راستہ ہی کہیں پُر خطر بھی ہوتا ہے |
|
شبِ طویل کے پیچھے ہی تم یقین رکھو ذرا سی دور پہ وقتِ سحر بھی ہوتا ہے |
|
اگرچہ تلخیء حق گوئی زہر ہے اشعؔر یہی تو زہرمگر بے ضرر بھی ہوتا ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
جو علم دوست بھی اور باہنر بھی ہوتا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment