اگر وہ میری محبّت کے ہاتھ آجائے لبوں پہ میرے بھِی جینے کی بات آجائے |
|
نہ جس نے دیکھا سویرا نہ روشنی اب تک بلا سے اس کی اگر پھر سے رات آجائے |
|
جسے عزیز ہے آرام، چین سے بیٹھے جسے پسینہ بہانا ہے ساتھ آجائے |
|
بہا کے اشک جہاں بھر کو جیت لیتا ہے جسے بھی راس یہ اشکوں کی گھات آجائے |
|
ہے بدزبانی سے اچھا کہ بے زبان رہو زباں کو کھولنا، کرنا جو بات آجائے |
|
اجل کا خوف ہے جس کو، وہ گھر میں بیٹھا رہے جو زندگی کو کہے بے ثبات، آجائے |
|
یقیں یہی تھا کہ جیتوں گا میں مگر اشعؔر علاج کیا جو مقدّر میں مات آجائے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Saturday, May 9, 2009
اگر وہ میری محبّت کے ہاتھ آجائے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment