
| اگر وہ میری محبّت کے ہاتھ آجائے لبوں پہ میرے بھِی جینے کی بات آجائے |
|
|
| نہ جس نے دیکھا سویرا نہ روشنی اب تک بلا سے اس کی اگر پھر سے رات آجائے |
|
|
| جسے عزیز ہے آرام، چین سے بیٹھے جسے پسینہ بہانا ہے ساتھ آجائے |
|
|
| بہا کے اشک جہاں بھر کو جیت لیتا ہے جسے بھی راس یہ اشکوں کی گھات آجائے |
|
|
| ہے بدزبانی سے اچھا کہ بے زبان رہو زباں کو کھولنا، کرنا جو بات آجائے |
|
|
| اجل کا خوف ہے جس کو، وہ گھر میں بیٹھا رہے جو زندگی کو کہے بے ثبات، آجائے |
|
|
| یقیں یہی تھا کہ جیتوں گا میں مگر اشعؔر علاج کیا جو مقدّر میں مات آجائے |
|
|
No comments:
Post a Comment