
| اب کیا ہے کوئی میرا رہا یا نہیں رہا اپنا سا جو لگا تھا وہ اپنا نہیں رہا |
|
|
| ہے جھوٹ اتنا عام کہ سچ کھو کے رہ گیا کیا جانیے سراب جو دریا نہیں رہا |
|
|
| اک آستیں کے سانپ کا ڈسنا عجیب تھا اب زخمِ دشمنی کوئی گہرا نہیں رہا |
|
|
| کیا سانحہ ہے اہلِ جنوں میں بھی اب کوئی جنسِ وفا کا چاہنے والا نہیں رہا |
|
|
| بے مہریوں پہ اشکِ مُسرّت چھلک پڑے صد شکر ان کے پاس دکھاوا نہیں رہا |
|
|
| اس شہرِ با وفا میں یہ کیسا ہے انقلاب اے دل یہاں تو کوئی شناسا نہیں رہا |
|
|
| ابتک تو خیر زہر کو کہتا رہا ہوں زہر لیکن یہ حوصلہ مجھے سستا نہیں رہا |
|
|
| کس کو فریب دیتے ہو اشعؔر کہ اب تمہیں ترکِ تعلّقات کا صدمہ نہیں رہا |
|
|
No comments:
Post a Comment