
| زیرِ پا کچھ دائروں کا سلسلہ رکھا گیا ہمسفر یوں اک دکھوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| دھوپ سے تپتے ہوئے صحرا پہ ازراہ کرم آگ برساتی رتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| میرا بندِ ضبطِ گریہ کیا ہے گر اس آنکھ میں بھول کر بھی آنسوؤں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| بھولنے والے بتا تو یاد بھی آتا ہے کیوں کیوں اب ایسی قربتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| ان ہواؤں کا بھرم کھُل جائے گا جب سامنے حق نگر جلتے دیوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| کوئی چھوٹی سی خطا لفظ و بیاں تک جب گئی رائی پر اک پربتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
| تاکہ اے اشعؔر سفر کٹ جائے ہنستے کھیلتے راستے بھر گل رُخوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
|
No comments:
Post a Comment