زیرِ پا کچھ دائروں کا سلسلہ رکھا گیا ہمسفر یوں اک دکھوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
دھوپ سے تپتے ہوئے صحرا پہ ازراہ کرم آگ برساتی رتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
میرا بندِ ضبطِ گریہ کیا ہے گر اس آنکھ میں بھول کر بھی آنسوؤں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
بھولنے والے بتا تو یاد بھی آتا ہے کیوں کیوں اب ایسی قربتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
ان ہواؤں کا بھرم کھُل جائے گا جب سامنے حق نگر جلتے دیوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
کوئی چھوٹی سی خطا لفظ و بیاں تک جب گئی رائی پر اک پربتوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
تاکہ اے اشعؔر سفر کٹ جائے ہنستے کھیلتے راستے بھر گل رُخوں کا سلسلہ رکھا گیا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Saturday, May 9, 2009
زیرِ پا کچھ دائروں کا سلسلہ رکھا گیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment