
| اسے جب بھی نگاہِ شوق سے دیکھا ہے میں نے خود اپنے کو تماشا بن کے دکھلایا ہے میں نے |
|
|
| گُلاب و یاسمن، چمپا، کنول، یا پھر چنبیلی کوئی بُوجھے تمہارا نام کیا رکھا ہے میں نے |
|
|
| وفا و مہر کی تصویر ہی آنکھوں میں آئی ترے بارے میں جتنی بار بھی سوچا ہے میں نے |
|
|
| گھٹائیں کیوں نہ چھا جاتیں بھلا حدِّ نظر تک تصوّر میں کسی کی زلف کو کھولا ہے میں نے |
|
|
| پئے دیدار کب سے منتظر تھیں میری آنکھیں ذرا سی دیر کو دل سے تجھے مانگا ہے میں نے |
|
|
| خود اپنے آپ کو ہی دوش دینا پڑ گیا ہے مسائل کو تری نظروں سے جب دیکھا ہے میں نے |
|
|
| بہت نادم نظر آیا ہوں اپنی ذات کو میں وفاؤں کی کسوٹی پر اگر پرکھا ہے میں نے |
|
|
| اگر ہے آج کل ہرجائیوں ہی کا زمانہ تجھے پھر کیوں بہ اندازِ دگر چاہا ہے میں نے |
|
|
| مسیحا کو یہ نادانی میں اشعؔر کیا بتاؤں فریبِ دوستی کا زہر بھی چکھا ہے میں نے |
|
|
No comments:
Post a Comment