
| جو آگئے ہیں دوبارہ وہ پیار کے موسم تو کیوں نہ آئیں پلٹ کر بہار کے موسم |
|
|
| نگاہِ شوق پہ میری وہ یوں لجائے کہ بس جمال دے گئے ان کو نکھار کے موسم |
|
|
| ہر ایک رت میں وہ بس جیتنے کا عادی ہے جتا گئے ہیں مجھے میری ہار کے موسم |
|
|
| گمانِ برہمی ء زلف تھا مجھے بھی حضور سو لے کے آیا ہوں دیکھو سنوار کے موسم |
|
|
| گُمانِ ضبط بہت تھا مجھے مگر پھر بھی رلا گئے ہیں کسی اشکبار کے موسم |
|
|
| بیاں تو حسنِ ادائے خرام یوں بھی ہوا چلے ہیں دیکھو وہ سرو و چنار کے موسم |
|
|
| اُمّیدِ وصل کی خوشبو اگر نہ ہو ان میں تو کون کاٹ سکے انتظار کے موسم |
|
|
| مرے یقیں کا سفینہ ابھی سلامت ہے چھُٹے کہاں ہیں ابھی اعتبار کے موسم |
|
|
| یہ اور بات کہ رسوائیوں کا خوف بھی ہے بلا رہے ہیں مگر کوئے یار کے موسم |
|
|
| میں ہاں میں ہاں نہ ملاؤں تو کیا کروں اشعؔر برت چکا ہوں کئی خلفشار کے موسم |
|
|
No comments:
Post a Comment