امید و حسرتِ جاں لاجواب رکھتے ہیں دلِ حزیں میں مُسرّت کا خواب رکھتے ہیں |
|
اگرچہ دل میں دکھوں کا عذاب رکھتے ہیں عذابِ دل پہ مگر اک حجاب رکھتے ہیں |
|
سُخن کی شکل میں رسوائیوں کا شوق لیے محبّتوں کی ہم اپنی کتاب رکھتے ہیں |
|
کسی سبب سے ہیں لب بستہ ہم مگر جاناں ہر ایک بات کا تیری جواب رکھتےہیں |
|
شمار کرتے نہیں ہیں جو اپنے جور کبھی مری وفاؤں کا وہ کیوں حساب رکھتے ہیں |
|
ہمیں پتا ہے ثباتِ حیات کیا ہے کہ ہم نظر میں اپنی ہوا و حباب رکھتے ہیں |
|
مجال کیا کہ نہ دریا کہیَں مری آنکھیں وہ میرے سامنے جو بھی سراب رکھتے ہیں |
|
میں بے خودی کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں وہ اپنی آنکھوں میں سحرِ شراب رکھتے ہیں |
|
کسی کو کیا پتا اشعؔر بھی اپنی آنکھوں میں برسنے والے ہزاروں سحاب رکھتےہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
امید و حسرتِ جاں لاجواب رکھتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment