برثباتِ زندگانی بحر و بر کوئی نہیں دہر میں گویا پناہِ معتبر کوئی نہیں |
|
آنکھ تو ہر شخص رکھتا ہے مگر اس شہرمیں ایسا کیوں لگنے لگا اہلِ نظر کوئی نہیں |
|
ہم نے تو دیکھا یہی ہے ہجرتوں کے درمیاں راستے ہی راستے ہیں اپنا گھر کوئی نہیں |
|
سارے عالم میں ہر اک دل کو یہی کہتے سنا توڑنے والے بہت ہیں شیشہ گر کوئی نہیں |
|
پیڑ سایہ دار ہر جانب نظرآئے مگر سایہ جس کا ہو سکوں آگیں شکر کوئی نہیں |
|
تتلیوں کے دیس میں پہنچے تو یہ عقدہ کھُلا جھوٹ سنتے آئے تھے جاذب نظر کوئی نہیں |
|
کس کے شانہِ پر رکھیں سر، زخم دکھلائیں کسے لوگ سرگرداں ہیں اشعؔر چارہ گر کوئی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
برثباتِ زندگانی بحر و بر کوئی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment