
| برثباتِ زندگانی بحر و بر کوئی نہیں دہر میں گویا پناہِ معتبر کوئی نہیں |
|
|
| آنکھ تو ہر شخص رکھتا ہے مگر اس شہرمیں ایسا کیوں لگنے لگا اہلِ نظر کوئی نہیں |
|
|
| ہم نے تو دیکھا یہی ہے ہجرتوں کے درمیاں راستے ہی راستے ہیں اپنا گھر کوئی نہیں |
|
|
| سارے عالم میں ہر اک دل کو یہی کہتے سنا توڑنے والے بہت ہیں شیشہ گر کوئی نہیں |
|
|
| پیڑ سایہ دار ہر جانب نظرآئے مگر سایہ جس کا ہو سکوں آگیں شکر کوئی نہیں |
|
|
| تتلیوں کے دیس میں پہنچے تو یہ عقدہ کھُلا جھوٹ سنتے آئے تھے جاذب نظر کوئی نہیں |
|
|
| کس کے شانہِ پر رکھیں سر، زخم دکھلائیں کسے لوگ سرگرداں ہیں اشعؔر چارہ گر کوئی نہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment