آئیے کھُل کے بات ہوجائے کچھ گھٹن سے نجات ہوجائے |
|
ہیں اگر آپ مُونس و غم خوار کچھ تو شرحِ صفات ہوجائے |
|
تم اگر آملو گھڑی بھر کو زندگی ذی حیات ہوجائے |
|
ہر ستم کرچکے ہو جی بھر کے اب تو کچھ التفات ہوجائے |
|
دن دہاڑے بھی اب یہ ممکن ہے شہر میں اپنے رات ہوجائے |
|
کچھ عجب تو نہیں کہ دل کے ساتھ پھر کوئی واردات ہوجائے |
|
جیتنے کی وہ ضد نہ چھوڑیں گے ہو رہی ہے تو مات ہوجائے |
|
کاش اک بار اس کی چھت پربھی بارشِ حادثات ہوجائے |
|
عین ممکن ہے آرزو اس کی حاصلِ کائنات ہوجائے |
|
کیا خبر پھر کوئی بنامِ وفا بے وفائی کی گھات ہوجائے |
|
دوست ہو تم دعا کرو اشعؔر مجھ کو عرفانِ ذات ہوجائے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
آئیے کھُل کے بات ہوجائے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment