
| وہ جس کی عمر کٹی حق کو آزمانے میں اُسے ملی نہ حقیقت کسی فسانہِ میں |
|
|
| سوادِ ساحلِ دریا بھی جانتا ہوں مگر مزہ کچھ اور ہی آتا ہے ڈوب جانے میں |
|
|
| بجا ہے آپ کا کہنا کہ دیکھنا تھا ہمیں اِدھر اُدھر کا بھی ماحول گھر بنانے میں |
|
|
| وہی چراغ تو سب آندھیوں کی زد پر ہیں جگر کا خون لگا ہے جنہیں جلانے میں |
|
|
| کیا ہے میں نے ہی رسوا تمہیں، یہ تہمت ہے تمہارا ذکر کہاں ہے، مرے فسانہِ میں |
|
|
| اس ایک لمحہء دار و رسن پہ کیا سودا عذاب جھیلا ہے پندار کو بچانے میں |
|
|
| ہے اختیار وجود و عدم پہ کیا اشعؔر نہ رائے آنے میں اپنی نہ رائے جانے میں |
|
|
No comments:
Post a Comment