ہر ایک سمت ہے حسن جہاں، جہاں دیکھوں اسے نہ دیکھوں میں ناصح تو پھر کہاں دیکھوں |
|
فریبِ حسنِ خرد کا اسیر ہوجاؤں اگر کمالِ جنوں اپنا رائیگاں دیکھوں |
|
سحابِ زلف کی رخ سے نقاب ہٹے تو ذرا میں پورے چاند کا مسحور کن سماں دیکھوں |
|
یقیں تمہاری محبت کا آہی جائے اگر رُخِ حسیں پہ تبسّم بہ شکلِ ہاں دیکھوں |
|
میں اپنے بارےمیں جب تک ہے زندگی میری خدا کرے نہ کوئی دوست بدگماں دیکھوں |
|
میں بے وفا اُسے کہہ دوں مگر بتائے کوئی وفائے عمر کو کس دل سے رائیگاں دیکھوں |
|
تو کیا مناظرِ دنیا سے پھیرلوں آنکھیں جدہر تمہارا اشارہ ہو بس وہاں دیکھوں |
|
میں چاہتا ہوں کہ حیرت میں آئینے پڑجائیں چھپا ہوا پسِ آئینہ سب عیاں دیکھوں |
|
ہے ممکنات میں یہ بھی مرا خیالِ نظر خراجِ حسن کو عاشق کا امتحاں دیکھوں |
|
یہ آرزو تو عجب ہے مگر یہ ہے اشعؔر خود اپنے گھر میں اُسے اپنا میزباں دیکھوں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Saturday, May 9, 2009
ہر ایک سمت ہے حسن جہاں، جہاں دیکھوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment