
| ہر ایک سمت ہے حسن جہاں، جہاں دیکھوں اسے نہ دیکھوں میں ناصح تو پھر کہاں دیکھوں |
|
|
| فریبِ حسنِ خرد کا اسیر ہوجاؤں اگر کمالِ جنوں اپنا رائیگاں دیکھوں |
|
|
| سحابِ زلف کی رخ سے نقاب ہٹے تو ذرا میں پورے چاند کا مسحور کن سماں دیکھوں |
|
|
| یقیں تمہاری محبت کا آہی جائے اگر رُخِ حسیں پہ تبسّم بہ شکلِ ہاں دیکھوں |
|
|
| میں اپنے بارےمیں جب تک ہے زندگی میری خدا کرے نہ کوئی دوست بدگماں دیکھوں |
|
|
| میں بے وفا اُسے کہہ دوں مگر بتائے کوئی وفائے عمر کو کس دل سے رائیگاں دیکھوں |
|
|
| تو کیا مناظرِ دنیا سے پھیرلوں آنکھیں جدہر تمہارا اشارہ ہو بس وہاں دیکھوں |
|
|
| میں چاہتا ہوں کہ حیرت میں آئینے پڑجائیں چھپا ہوا پسِ آئینہ سب عیاں دیکھوں |
|
|
| ہے ممکنات میں یہ بھی مرا خیالِ نظر خراجِ حسن کو عاشق کا امتحاں دیکھوں |
|
|
| یہ آرزو تو عجب ہے مگر یہ ہے اشعؔر خود اپنے گھر میں اُسے اپنا میزباں دیکھوں |
|
|
No comments:
Post a Comment