چھوڑ کر دامن تیرا یہ سچ ہے مرجائیں گے ہم زندگی تیرے لیے اتنا تو کرجائیں گے ہم |
|
اس طرف بازارِ نفرت گرم ہے تو کیا ہوا لے کےسودائے محبت ہی اُدہرجائیں گے ہم |
|
صرف تاریکی کرو تقسیم اس وعدہ کے ساتھ روشنی سے قوم کے دامن کو بھر جائیں گے ہم |
|
جیسے تیسے جی رہے ہیں اپنی خوشیوں کے بغیر درد نے تیرے مگر چھوڑا تو مرجائیں گے ہم |
|
ہم جہاں پہنچے وہاں بس دشت و صحرا ہی ملے چھوڑ کر اپنا مکاں سوچا تھا گھر جائیں گے ہم |
|
وقت کے مرہم سے کچھ ہوگی امیدِ اندمال ورنہ کیوں کہتے ہمارے زخم بھر جائیں گے ہم |
|
پائیں گی اشعؔر ہوائیں سامنے ہم کو سدا چل دیے گردوش پر ان کے بکھر جائیں گے ہم |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Saturday, May 9, 2009
چھوڑ کر دامن تیرا یہ سچ ہے مرجائیں گے ہم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment