جس جگہ روشنی نہیں جاتی کہتےہیں آگہی نہیں جاتی |
|
بات میں سننا چاہتا ہوں وہی آپ سے جو کہی نہیں جاتی |
|
مانا وہ دور ہیں مگر ان تک کیا مری آہ بھی نہیں جاتی |
|
توڑ کر دل بھی اس کے ہاتھوں سے اس کی شیشہ گری نہیں جاتی |
|
دردِ دل کم ہے آج کل لیکن جانے کیوں بے کلی نہیں جاتی |
|
فرقتوں میں بھی میرے کمرے سے اس کی خوشبو کبھی نہیں جاتی |
|
وحشتِ دل کا کیا کریں درماں کیا کریں سرکشی نہیں جاتی |
|
تم چراغوں کی لَو بڑھاتے رہو ورنہ تِیرہ شبی نہیں جاتی |
|
جا چکا وہ پر اس کے آنے پر جو ملی تھی خوشی نہیں جاتی |
|
ہم کہ اک شاعرِ تغزّل ہیں فطرتاً عاشقی نہیں جاتی |
|
رقصِ بسمل ہے اور میں اشعؔر جب تلک بے خودی نہیں جاتی |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
جس جگہ روشنی نہیں جاتی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment