بہت سا اضطرابِ جاں بہم ہے یقیناً آج دل میں درد کم ہے |
|
ستم ہوتا رہے یونہی تو کیا غم توجّہ صرف مجھ پر ہے کرم ہے |
|
پُکارا ہے جسے پیہم نفس نے وہ آتا ہی نہیں ہے کیا ستم ہے |
|
اگر مئے ہی نہیں حاصل تو پھر کیا کوئی پیالہ سفّالی ہے کہ جم ہے |
|
یہ دھو ڈالے گا داغِ کج وفائی مری نظروں میں جو تیرا بھرم ہے |
|
نظر میں اپنی گر جائیں تو پھر کیا ہدف تو حاصلِ جاہ و حشم ہے |
|
بُہت دن تک رہو گے یاد اشعؔر سُخن میں گر تمہارے کوئی دم ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
بہت سا اضطرابِ جاں بہم ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment