
| بہت سا اضطرابِ جاں بہم ہے یقیناً آج دل میں درد کم ہے |
|
|
| ستم ہوتا رہے یونہی تو کیا غم توجّہ صرف مجھ پر ہے کرم ہے |
|
|
| پُکارا ہے جسے پیہم نفس نے وہ آتا ہی نہیں ہے کیا ستم ہے |
|
|
| اگر مئے ہی نہیں حاصل تو پھر کیا کوئی پیالہ سفّالی ہے کہ جم ہے |
|
|
| یہ دھو ڈالے گا داغِ کج وفائی مری نظروں میں جو تیرا بھرم ہے |
|
|
| نظر میں اپنی گر جائیں تو پھر کیا ہدف تو حاصلِ جاہ و حشم ہے |
|
|
| بُہت دن تک رہو گے یاد اشعؔر سُخن میں گر تمہارے کوئی دم ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment