نکل کے حرف ہی دل سے اگر نہیں آتا تو پھر دعاؤں میں کوئی اثر نہیں آتا |
|
شبِ طویل اگرچہ گزرنے والی ہے مگر یہ کیا کہ یقینِ سحر نہیں آتا |
|
نہ آبیاری کی تکلیف کی تو کیسا گِلہ ہمارے پیڑوں پہ اچھّا ثمر نہیں آتا |
|
وہ اس خیال سے آتا ہے کوئی یہ نہ کہے کہ میرے خوابوں میں لختِ جگر نہیں آتا |
|
وہ اور لوگ تھے جو کل میں جھانک لیتے تھے اب اتنی دور کسی کو نظر نہیں آتا |
|
برابری کا جو دعویٰ کریں تو کیسے کریں عدو کا جیسا کوئی کام کرنہیں آتا |
|
ہمارے زخم بھِی ضدّی سے ہیں بہت اشعؔر رہیں گے تازہ اگر چارہ گر نہیں آتا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
نکل کے حرف ہی دل سے اگر نہیں آتا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment