گزر ہی جائے گی یہ شب، مگر آہستہ، آہستہ دکھائی دیں گے آثارِ سحر، آہستہ، آہستہ |
|
جنہیں ہم آج پانی دے رہے ہیں اس مشقّت سے یہی پودے ہمیں دیں گے ثمر، آہستہ، آہستہ |
|
سنوارے جارہی ہیں وقت کی لہریں ہمیں شاید سنبھلتے جارہے ہیں ہم مگر، آہستہ، آہستہ |
|
ہمیں بے شک یہ لگتا ہے کہ منزل دور ہے لیکن کبھی تو ختم ہونا ہے سفر، آہستہ، آہستہ |
|
محبّت کو چھپا کر لاکھ رکھو تم زمانہِ سے پہنچ جائے گی دنیا کو خبر، آہستہ، آہستہ |
|
محبّت کی نظر سے بام و در دیکھا کرو اپنے یہی پردیس بن جائے گا گھر، آہستہ، آہستہ |
|
نہ جانے کیوں ہمیں ساقی سے مایوسی نہیں اشعؔر ہماری سمت بھی ہوگی نظر، آہستہ، آہستہ |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
گزر ہی جائے گی یہ شب، مگر آہستہ، آہستہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment