تمنّا گھر کی رکھتے ہیں سفر کرتے رہیں گے اسی خواہش میں رستوں پر بسر کرتے رہیں گے |
|
عمل احکام پر ان کے اگر کرتے رہیں گے حکومت تم پہ ہم اے بحر و بر کرتے رہیں گے |
|
تعجّب کیا اگر زخموں پہ وہ رکھتے ہیں نشتر علاجِ درد کچھ تو چارہ گر کرتے رہیں گے |
|
ڈبو کر انگلیوں کو خون میں ہم سُرخرو ہیں مگر اب تابکے خونِ جگر کرتے رہیں گے |
|
سرِ ساحل یہ دریا شور تو کرتا رہے گا سمندر ہیں تو ہم صرفِ نظر کرتے رہیں گے |
|
دلوں کو توڑنا ٹوٹے دلوں کو جوڑ دینا جو اُن کا کام ہے وہ شیشہ گر کرتے رہیں گے |
|
نہیں ہے اور کبھی نانِ شبینہ ہے مُیسّْر قناعت ساتھ رہتی ہے گزر کرتے رہیں گے |
|
وہی پھر وعدہء فردا مگر سرکار کب تک یہ احساں آپ میرے حال پر کرتے رہیں گے |
|
سراسیمہ سا جب بھی آگرے گا شورِ دریا سمندر سب گزشتہ در گزر کرتے رہیں گے |
|
چمن سے عہد ہے جب تک رہیں گے ایستادہ ہمارا کام ہے کارِ شجر کرتے رہیں گے |
|
وہ اشعؔر جادہء مقتل ہو یا طوقِ وسلاسل محبّت کے مراحل ہم تو سر کرتے رہیں گے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
تمنّا گھر کی رکھتے ہیں سفر کرتے رہیں گے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment