پتا ہے ساتھ نہ دے گی ہوا زمانہِ کی مری وفا کو ضرورت بھی کیا فسانہِ کی |
|
نکل کے جاتی ہی کیوں برق دشت کی جانب فضا جب اچھی لگی میرےآشیانہِ کی |
|
کبھی بہ ہجر و تغافل کبھی بہ مہر و وفا ہیں اُسی کی اپنی تراکیب آزمانے کی |
|
ہے ابر چھایا ہوا شام ہے مگر یہ لوگ نہ خود پئیں گے نہ خواہش ہے کچھ پلانے کی |
|
تم اپنے زخموں کی توقیر چاہتے ہو تو پھر زمانہِ بھر کو ضرورت ہی کیا دکھانے کی |
|
ہوا نے ٹھانی اگر ہے کہ تیرگی ہی رہے تو پھر ہماری بھی ضد ہے دیے جلانے کی |
|
وہ قصّہ پورا میں اشعؔر بیان کیسے کروں ہیں کچھ بتانے کی باتیں تو کچھ چھپانے کی |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
پتا ہے ساتھ نہ دے گی ہوا زمانہِ کی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment