
| پتا ہے ساتھ نہ دے گی ہوا زمانہِ کی مری وفا کو ضرورت بھی کیا فسانہِ کی |
|
|
| نکل کے جاتی ہی کیوں برق دشت کی جانب فضا جب اچھی لگی میرےآشیانہِ کی |
|
|
| کبھی بہ ہجر و تغافل کبھی بہ مہر و وفا ہیں اُسی کی اپنی تراکیب آزمانے کی |
|
|
| ہے ابر چھایا ہوا شام ہے مگر یہ لوگ نہ خود پئیں گے نہ خواہش ہے کچھ پلانے کی |
|
|
| تم اپنے زخموں کی توقیر چاہتے ہو تو پھر زمانہِ بھر کو ضرورت ہی کیا دکھانے کی |
|
|
| ہوا نے ٹھانی اگر ہے کہ تیرگی ہی رہے تو پھر ہماری بھی ضد ہے دیے جلانے کی |
|
|
| وہ قصّہ پورا میں اشعؔر بیان کیسے کروں ہیں کچھ بتانے کی باتیں تو کچھ چھپانے کی |
|
|
No comments:
Post a Comment