نہ پوچھو زندگی بھر اور کیا کرتا رہا ہوں بس اک ہرجائی پر جی جان سے مرتا رہاہوں |
|
نہیں بھٹکا ہوں میں اب تک یقیں محکم ہے میرا نشاں منزل کا لے کرآنکھ میں چلتا رہا ہوں |
|
مکافاتِ عمل کا ہو یقیں اس کو لہٰذا اُسے ہرجائی، ظالم بے وفا کہتا رہا ہوں |
|
مجھے معلوم ہے انجام میرا کیا ہے ناصح میں اپنی وحشتوں کی آگ میں جلتا رہا ہوں |
|
علاجِ خود نوشتہ ہے مرا گریہ مسلسل میں اپنا زخمِ دل پیہم ہرا کرتا رہا ہوں |
|
کسی جلتی ہوئی اک موم بتی کی طرح سے تمہارے شوق کی اشکال میں ڈھلتا رہا ہوں |
|
مرا دل مجھ سے کہتا ہے وہ لوٹ آئے گا اشعؔر اسی خوش کن رہِ امِید پر چلتا رہا ہوں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
نہ پوچھو زندگی بھر اور کیا کرتا رہا ہوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment