محبت کب بھلا اک جرم کہلائی نہیں جاتی چلے بھی جائیں دنیا سے تو رسوائی نہیں جاتی |
|
کبھی تنہائی میں یادوں کے جھرمٹ ساتھ رہتے ہیں کبھی ہنگامۂ محفل میں تنہائی نہیں جاتی |
|
قلم کاغذ ہمیں زنداں میں آخر کون دے لیکن طبیعت سے ہماری خامہ فرسائی نہیں جاتی |
|
محبّت کا سفر چھوڑا مگر پھر بھی یہی دیکھا جو قسمت میں لکھی ہے آبلہ پائی نہیں جاتی |
|
زمانہ ہوگیا بچھڑے ہوئے تجھ سے مگر جاناں تری سانسوں کی کمرے سے شناسائی نہیں جاتی |
|
جئیں گے اور کتنے دن بھلا اس حبس میں آخر ہمارے روزنِ دل تک تو پُروائی نہیں جاتی |
|
سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں سب کی آرزوؤں پر کسی کی خواہشِ دل ہم سے ٹھکرائی نہیں جاتی |
|
درِ دل پر تم اپنے لاکھ تالے ڈال کر رکھو محبّت خود ہی آجاتی ہے بلوائی نہیں جاتی |
|
سجالیتے ہیں محفل یاد کی زنداں میں بھی اشعؔر طبیعت سے ہماری بزم آرائی نہیں جاتی |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Saturday, May 9, 2009
محبت کب بھلا اک جرم کہلائی نہیں جاتی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment