
| محبت کب بھلا اک جرم کہلائی نہیں جاتی چلے بھی جائیں دنیا سے تو رسوائی نہیں جاتی |
|
|
| کبھی تنہائی میں یادوں کے جھرمٹ ساتھ رہتے ہیں کبھی ہنگامۂ محفل میں تنہائی نہیں جاتی |
|
|
| قلم کاغذ ہمیں زنداں میں آخر کون دے لیکن طبیعت سے ہماری خامہ فرسائی نہیں جاتی |
|
|
| محبّت کا سفر چھوڑا مگر پھر بھی یہی دیکھا جو قسمت میں لکھی ہے آبلہ پائی نہیں جاتی |
|
|
| زمانہ ہوگیا بچھڑے ہوئے تجھ سے مگر جاناں تری سانسوں کی کمرے سے شناسائی نہیں جاتی |
|
|
| جئیں گے اور کتنے دن بھلا اس حبس میں آخر ہمارے روزنِ دل تک تو پُروائی نہیں جاتی |
|
|
| سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں سب کی آرزوؤں پر کسی کی خواہشِ دل ہم سے ٹھکرائی نہیں جاتی |
|
|
| درِ دل پر تم اپنے لاکھ تالے ڈال کر رکھو محبّت خود ہی آجاتی ہے بلوائی نہیں جاتی |
|
|
| سجالیتے ہیں محفل یاد کی زنداں میں بھی اشعؔر طبیعت سے ہماری بزم آرائی نہیں جاتی |
|
|
No comments:
Post a Comment