وہ اب بھی رہنا بہت محو خواب چاہتے ہیں جو بیٹھ کر لبِ دریا سراب چاہتے ہیں |
|
جنہیں ہے زعم کہ ہیں ماورائے سود و زیاں مری وفاؤں کا وہ کیوں حساب چاہتے ہیں |
|
لباس گیلے ہوں سنتے ہی جنکے لفظِ جہاد وہ مدرسوں کا بدلنا نصاب چاہتے ہیں |
|
ہم آنکھیں مُوند کے دستِ دعا اُٹھائے ہوئے تمہارے جلوؤں کی آنکھوں میں تاب چاہتے ہیں |
|
سُنا یہ ہے کہ محبّت بڑا ہے کارِ ثواب سو کیا بُرا ہے جو ہم بھی ثواب چاہتے ہیں |
|
بدل بدل کے وہ چہرے ہزار آئیں مگر ہمیں پتا ہے جو خانہ خراب چاہتے ہیں |
|
حسابِ عمرِ مُحبّت لکھیں ہی کیوں اشعؔر پتا ہے تم کو تمہیں بے حساب چاہتے ہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
وہ اب بھی رہنا بہت محو خواب چاہتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment