
| وہ اب بھی رہنا بہت محو خواب چاہتے ہیں جو بیٹھ کر لبِ دریا سراب چاہتے ہیں |
|
|
| جنہیں ہے زعم کہ ہیں ماورائے سود و زیاں مری وفاؤں کا وہ کیوں حساب چاہتے ہیں |
|
|
| لباس گیلے ہوں سنتے ہی جنکے لفظِ جہاد وہ مدرسوں کا بدلنا نصاب چاہتے ہیں |
|
|
| ہم آنکھیں مُوند کے دستِ دعا اُٹھائے ہوئے تمہارے جلوؤں کی آنکھوں میں تاب چاہتے ہیں |
|
|
| سُنا یہ ہے کہ محبّت بڑا ہے کارِ ثواب سو کیا بُرا ہے جو ہم بھی ثواب چاہتے ہیں |
|
|
| بدل بدل کے وہ چہرے ہزار آئیں مگر ہمیں پتا ہے جو خانہ خراب چاہتے ہیں |
|
|
| حسابِ عمرِ مُحبّت لکھیں ہی کیوں اشعؔر پتا ہے تم کو تمہیں بے حساب چاہتے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment