مانگنا زندگی، آئی جو قضا بھول گئے ہم سرِ بابِ اثر حرفِ دعا بھول گئے |
|
وحشتِ عشق میں کیوں آگئے سورج بن کر تھی ہوا تیز اور ہم ایک دیا بھول گئے |
|
ٹوہ کچھ ان کی بھی لگ جانا تھی لیکن افسوس صبح تا شام تھی ہمراہ صبا بھول گئے |
|
اپنی آنکھوں کے ستارے تو انہیں یاد رہے وہ چراغاں جو مرے گھر میں ہوا بھول گئے |
|
دل پہ چھایا ہے کوئی آسماں بن کر جب سے کون پھر اور ہمیں یاد رہا بھول گئے |
|
بے وفاؤں سے محبّت کا اب امکان کہاں اب تو الفت کا چلن اہلِ وفا بھول گئے |
|
اس ادا میں بھی ہے سازش کوئی پنہاں اشعؔر وہ جو اک وعدۂ فردا کی سزا بھول گئے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
مانگنا زندگی، آئی جو قضا بھول گئے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment