درد بے حد تھا اذیّت کا گلہ کوئی نہ تھا ہاتھ پھیلے تھے لبوں پر مدّعا کوئی نہ تھا |
|
میری نظروں میں صنم پہلے بھی تھے کتنے مگر دیوتا بن کر مرے دل میں سجا کوئی نہ تھا |
|
سب کی نظریں ٹک گئی تھیں بس مرے اشعار پر مبتلائے خوابِ خوش فہمی سنا کوئی نہ تھا |
|
میں بہت ناراض تھا اس سے مگر اس کے لیے جو نہیِں تھا دل میں وہ حرفِ دعا کوئی نہ تھا |
|
پھر وہ آخر کون تھا کل خواب کی دہلیز پر ذہن کے پردوں میں تو تیرے سوا کوئی نہ تھا |
|
یہ اندھیرے پھر کہاں سے آگئے، کل کی ہے بات جگنوؤں کی ضربِ کاری سے بچا کوئی نہ تھا |
|
آتشِ عشقِ بُتاں سے دل بچاتے کس طرح حاصلِ سوزِ مُحبّت ناروا کوئی نہ تھا |
|
اُس دیے کو اور بھی خطرات لاحق تھے مگر ایسی طوفانی ہواؤں کا پتا کوئی نہ تھا |
|
تیری آہٹ کا گُماں ہی تھا دلِ اشعؔر کو بس دوسرا امکان ہی مثلِ صبا کوئی نہ تھا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
درد بے حد تھا اذیّت کا گلہ کوئی نہ تھا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment