اس نے دنیائے عنایات مقابل رکھ دی جادۂ خواب کے ہر گام پہ منزل رکھ دی |
|
خوب ہے آپ کا افسانہء پیمانِ وفا وصل کے باب میں کیا شرطِ مراحل رکھ دی |
|
مار ہی دیتا یہ سنّاٹا قفس کا لیکن شکر کر پاؤں میں آوازِ سلاسل رکھ دی |
|
اور کیا ہوتی ہے معراجِ کمالِ تمثیل دہر کے سامنے اک ہستیء کامل رکھ دی |
|
کردیا سہل مرا جادۂ منزل اس نے ایک اک گام پہ میرے لیے مشکل رکھ دی |
|
قلب کو میرے تلاطم کی محبّت دے کر فطرتِ ذہن میں ارزانیء ساحل رکھ دی |
|
ہو چلا قُربتِ منزل کا یقیں جب اشعؔر دوست نے راہ میں دیوارِ مسائل رکھ دی |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
اس نے دنیائے عنایات مقابل رکھ دی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment