
| جیون گر ایسا ہے جیسے تنہائی کی بات پھر تو جاں سے گزرجانا ہے دانائی کی بات |
|
|
| میرے پیار پہ سب کا حق ہے میں کیسے سمجھاؤں اہلِ وفا میں کون سنے ہے ہرجائی کی بات |
|
|
| اپنے بچِے جیسے بھی ہیں چاند ستارے ہیں گھر سے باہر کیوں کرتے ہو رسوائی کی بات |
|
|
| اس کے بیاہ کی باتیں یوں تو چلتی رہتی ہیں سود و زیاں پر رک جاتی ہے شہنائی کی بات |
|
|
| جب تک دریا گر نہیں جاتا کسی سمندر میں کیوں دریا سے کی جاتی ہے گہرائی کی بات |
|
|
| بادِ صبا تُو کرسکتی ہے یوں بھی مجھے فرحاں پہلے ان کا ذکر چلے پھر پُروائی کی بات |
|
|
| شیشہِ کی دیواریں اشعؔر بازی جیت گئیں آئینوں سے پوچھ کے دیکھو رعنائی کی بات |
|
|
No comments:
Post a Comment