
| جب میرے خوابوں میں آیا کیجیے مجھ کو تعبیریں بتایا کیجیے |
|
|
| آپ کی آنکھوں میں آنسو جی نہیں آپ تو بس مسکرایا کیجیے |
|
|
| ملکیت ہیں آپ کی میرے سُخن گیت اپنے گنگنایا کیجیے |
|
|
| دشمنی ہے مجھ سے ورنہ رات دن کیوں مسلسل یاد آیا کیجیے |
|
|
| چار دن کی زندگی ہے اور آپ زندگی بھر آزمایا کیجیے |
|
|
| مجھ کو آنکھوں میں رکھیں لیکن حضور اپنی پلکیں مت اُٹھایا کیجیے |
|
|
| جب اکیلا پن بہت محسوس ہو بزم یادوں کی سجایا کیجیے |
|
|
| انتقام اشعؔر سے لینا ہے تو پھر اس کو غیروں سے بچایا کیجیے |
|
|
No comments:
Post a Comment