
تم یاد نہ آؤ کبھی ایسا نہیں ہوتا اک زخم بھی دل کا مرے اچھّا نہیں ہوتا |
|
|
| اچھّا تھا کوئی خواب ہی دیکھا نہیں ہوتا ابتک کسی تعبیر میں اُلجھا نہیں ہوتا |
|
|
| میں روز سرِ شام بچھا دیتا ہوں آنکھیں وہ شخص کسی روز بھی آیا نہیں ہوتا |
|
|
| میں کیسے چراغاں کروں اک رات بھی گھر میں بتلاؤ میں کس رات میں تنہا نہیں ہوتا |
|
|
| کچھ غم نہیں گر وہ بھی سویروں کا ہے ساتھی شب بھر تو مرا سایہ بھی میرا نہیں ہوتا |
|
|
| جی بھر کے اُسے ڈوب کے دیکھا تو کئی بار بھر جائے مگر جی کبھی ایسا نہیں ہوتا |
|
|
| تھکنے نہیں دیتی مجھے منزل کی تمنّا رکنے کو مرا دل سرِ جادہ نہیں ہوتا |
|
|
| ملتا ہی کہاں مجھ کو کنارہ کوئی اشعؔر اک موج نے گر ٹوٹ کے چاہا نہیں ہوتا |
|
|
No comments:
Post a Comment