
| تلخ لگتی ہیں زہر سی باتیں ایک حد سے گری ہوئی باتیں |
|
|
| ان سے جس وقت گفتگو ہوگی دیں گی احساسِ نغمگی باتیں |
|
|
| سُن رکھا تھا کہ پھول جھڑتے ہیں ہو رہی تھیں جلی کٹی باتیں |
|
|
| ایسی لگتی ہیں تیرے ہونٹوں پر جیسے گلدان میں سجی باتیں |
|
|
| ان لبوں سے نکل کے رکھتی ہیں اک قیامت کی دلکشی باتیں |
|
|
| لب پہ دونوں کے کچھ نہ آیا مگر ہوگئیں کتنی اَن کہی باتیں |
|
|
| اہلِ کینہ کدورتیں رکھ کر کرتے ہیں کیا ہنسی خوشی باتیں |
|
|
| خامشی موت کی علامت ہے گویا دیتی ہیں زندگی باتیں |
|
|
| ہم بھی انسان ہیں ترے جیسے ہوگئی ہوں گی دو رُخی باتیں |
|
|
| اُن کی سیرت کا ذکر جب بھی ہوا کر گئیں گھر میں روشنی باتیں |
|
|
| کس قدر ہوتی ہیں عمیق نہ پوچھ وہ جو کرتا ہے سرسری باتیں |
|
|
| ہوش میں کیا رہیں بھلا اشعؔر سحر کردیتی ہیں تری باتیں |
|
|
No comments:
Post a Comment