تلخ لگتی ہیں زہر سی باتیں ایک حد سے گری ہوئی باتیں |
|
ان سے جس وقت گفتگو ہوگی دیں گی احساسِ نغمگی باتیں |
|
سُن رکھا تھا کہ پھول جھڑتے ہیں ہو رہی تھیں جلی کٹی باتیں |
|
ایسی لگتی ہیں تیرے ہونٹوں پر جیسے گلدان میں سجی باتیں |
|
ان لبوں سے نکل کے رکھتی ہیں اک قیامت کی دلکشی باتیں |
|
لب پہ دونوں کے کچھ نہ آیا مگر ہوگئیں کتنی اَن کہی باتیں |
|
اہلِ کینہ کدورتیں رکھ کر کرتے ہیں کیا ہنسی خوشی باتیں |
|
خامشی موت کی علامت ہے گویا دیتی ہیں زندگی باتیں |
|
ہم بھی انسان ہیں ترے جیسے ہوگئی ہوں گی دو رُخی باتیں |
|
اُن کی سیرت کا ذکر جب بھی ہوا کر گئیں گھر میں روشنی باتیں |
|
کس قدر ہوتی ہیں عمیق نہ پوچھ وہ جو کرتا ہے سرسری باتیں |
|
ہوش میں کیا رہیں بھلا اشعؔر سحر کردیتی ہیں تری باتیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
تلخ لگتی ہیں زہر سی باتیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment