
| دوستو گردشِ دوراں سے پریشان نہ ہو ممکنہ خطرۂ طوفاں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| عین ممکن ہے عدو تیرا قوی ہو پھر بھی ہو کے انساں کسی انساں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| زندگی دیتی ہے یہ مُردہ زمینوں کو تری اس لیے زحمتِ باراں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| روشنی کی تجھے پڑجائے گی عادت اک دن اس قدر مہرِ درخشاں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| جس کو آتا ہی نہ ہو کوئی فنِ شیشہ گری کیسے ٹوٹے ہوئے پیماں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| تھام کر رکھو سکوں بخش خدا کی رسّی اور کسی حملۂ شیطاں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| تو سلامت رہے تا دیر دعا ہے لیکن جانِ جاں موت کے امکاں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| اپنی آنکھوں میں اگر شوق سے رکھا ہے مجھے پھر کسی دیدۂ حیراں سے پریشان نہ ہو |
|
|
| حکمت و فہم سے کر اپنی حفاظت اشعؔر سازشِ مجلسِ یاراں سے پریشان نہ ہو |
|
|
No comments:
Post a Comment