
| بھنور میں ناخدا جب بھی کوئی داخل ہوا ہے خدائی کا وہ مجبوراً سہی قائل ہوا ہے |
|
|
| دلِ ویراں میں کیا رکھا تھا پہلےدیکھنے کو تمہارا درد پا کر دید کے قابل ہوا ہے |
|
|
| محبّت میں ابھی سے موت کا طالب ہے ناداں ابھی انعامِ رسوائی کہاں حاصل ہوا ہے |
|
|
| ہوا کرتی تھیں آیاتِ محبّت جزوِ ایماں مسلسل دل جو ٹوٹا ہر یقیں باطل ہوا ہے |
|
|
| ہمارے درمیاں چاہت بھی ہے مہرو وفا بھی انا کا حادثہ پھر بھی خطِ فاصل ہوا ہے |
|
|
| مری حیرت زدہ آنکھِیں ابھی تک بے یقیں ہیں مسیحا جس کو ہونا تھا مرا قاتل ہوا ہے |
|
|
| مزہ آجائے گا اے پتھرو اب دیکھنا تم محبت میں لہو میرا تو اب شامل ہوا ہے |
|
|
| مری عرضِ تمناّ پر وہ اس طرح تھا برہم مجھے یوں لگ رہا تھا جیسےکچھ مائل ہوا ہے |
|
|
| نہ کیوں اشعؔر کیا کرتا ترے در کی فقیری تونگر ہوگیا ہے جو ترا سائل ہوا ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment