
| اُمّید کی آنکھوں سے نظّارے نہیں دیکھے طُوفاں سے الگ رہ کے کنارے نہیں دیکھے |
|
|
| کب ہم نے بغاوت کا ارادہ کیا جاناں کس روز بھلا تیرے اشارے نہیں دیکھے |
|
|
| دیکھا کیے اک عمر کسی خواب کا رستہ اور اپنے مُقدّر کے ستارے نہیں دیکھے |
|
|
| کیوں ہم سے چھپا پھرتا ہے وہ شعلہ بہ داماں کیا ہم نے کبھی برق شرارے نہیں دیکھے |
|
|
| کیسے نہ تلاطم کو یقیں جیت کا ہوتا جب اس نے عزائم ہی ہمارے نہیں دیکھے |
|
|
| جب کھُل کے ہوئی بات تو آپس کے مسائل ہر شخص نے مل جل کے سنوارے نہیں دیکھے |
|
|
| یوں ساتھ مرے غم کا سمندر ہے کہ اشعؔر گریہ کے کبھی جھُوٹے سہارے نہیں دیکھے |
|
|
No comments:
Post a Comment