اُمّید کی آنکھوں سے نظّارے نہیں دیکھے طُوفاں سے الگ رہ کے کنارے نہیں دیکھے |
|
کب ہم نے بغاوت کا ارادہ کیا جاناں کس روز بھلا تیرے اشارے نہیں دیکھے |
|
دیکھا کیے اک عمر کسی خواب کا رستہ اور اپنے مُقدّر کے ستارے نہیں دیکھے |
|
کیوں ہم سے چھپا پھرتا ہے وہ شعلہ بہ داماں کیا ہم نے کبھی برق شرارے نہیں دیکھے |
|
کیسے نہ تلاطم کو یقیں جیت کا ہوتا جب اس نے عزائم ہی ہمارے نہیں دیکھے |
|
جب کھُل کے ہوئی بات تو آپس کے مسائل ہر شخص نے مل جل کے سنوارے نہیں دیکھے |
|
یوں ساتھ مرے غم کا سمندر ہے کہ اشعؔر گریہ کے کبھی جھُوٹے سہارے نہیں دیکھے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
اُمّید کی آنکھوں سے نظّارے نہیں دیکھے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment