جس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا اچھّا لگتا ہے وہ پھر گورا ہو یا کالا ،اچھّا لگتا ہے |
|
دریا جیسا ہے مرا ساقی لیکن ظالم کو میرا پیاسا پیاسا رہنا ،اچھّا لگتا ہے |
|
پیار سے دے کر جامِ نصیحت رندِ محبّت کو ناصح تیرا ہوش میں لانا ،اچھّا لگتا ہے |
|
غزلیں کہتا رہتا ہوں میں ایک تسلسل سے ان سے باتیں کرتے رہنا، اچھّا لگتا ہے |
|
جھوٹے اور مکّار جہاں میں کوئی مُقدّر سے مل جائے گر اور طرح کا اچھّا لگتا ہے |
|
چشمِ جنوں میں پل کا تماشا ہے ساری دنیا بن کے خرد کو جزوِ تماشا ،اچھّا لگتا ہے |
|
دور نہ کیوں ہوجاتا آخر میری آنکھوں سے جس کو میرے دل میں دھڑکنا، اچھّا لگتا ہے |
|
کیوں نہ تجھے پھر یاد رکھے گا صبح ومساء ہردم زخم کو جب نشتر کا مداوا، اچھّا لگتا ہے |
|
اشعؔر تو نادان تھا جاناں اور بتا آخر شہر میں کس کو عہدِ شکستہ ،اچھّا لگتا ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
جس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا اچھّا لگتا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment