
| جس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا اچھّا لگتا ہے وہ پھر گورا ہو یا کالا ،اچھّا لگتا ہے |
|
|
| دریا جیسا ہے مرا ساقی لیکن ظالم کو میرا پیاسا پیاسا رہنا ،اچھّا لگتا ہے |
|
|
| پیار سے دے کر جامِ نصیحت رندِ محبّت کو ناصح تیرا ہوش میں لانا ،اچھّا لگتا ہے |
|
|
| غزلیں کہتا رہتا ہوں میں ایک تسلسل سے ان سے باتیں کرتے رہنا، اچھّا لگتا ہے |
|
|
| جھوٹے اور مکّار جہاں میں کوئی مُقدّر سے مل جائے گر اور طرح کا اچھّا لگتا ہے |
|
|
| چشمِ جنوں میں پل کا تماشا ہے ساری دنیا بن کے خرد کو جزوِ تماشا ،اچھّا لگتا ہے |
|
|
| دور نہ کیوں ہوجاتا آخر میری آنکھوں سے جس کو میرے دل میں دھڑکنا، اچھّا لگتا ہے |
|
|
| کیوں نہ تجھے پھر یاد رکھے گا صبح ومساء ہردم زخم کو جب نشتر کا مداوا، اچھّا لگتا ہے |
|
|
| اشعؔر تو نادان تھا جاناں اور بتا آخر شہر میں کس کو عہدِ شکستہ ،اچھّا لگتا ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment