
| زر و جواہر و لعل و گہر بھی جاتے ہیں سنو کہ جادۂ حق میں تو سر بھی جاتے ہیں |
|
|
| نظر میں رہتے ہیں جو لوگ آسماں کی طرح ذرا سی بات پہ دل سے اُتر بھی جاتے ہیں |
|
|
| نگاہِ دہر میں ساحل ہیں دونوں دَیر و حرم اِدھر بھی آتے ہیں کچھ لوگ اُدھر بھی جاتے ہیں |
|
|
| دیارِ غیر کے محلوں میں خوش رہو لیکن کبھی کبھی تو میاں اپنے گھر بھی جاتے ہیں |
|
|
| یہ خوش گُمانی ہی کیوں تھی وہ آہی جائے گا کبھی تو حَرفِ دُعا بے اثر بھی جاتے ہیں |
|
|
| تمہارے وعدۂ فردا پہ شک نہیں ہے مگر حَسین دیکھا گیا ہے مکر بھی جاتے ہیں |
|
|
| سُوئے مدینہ جھکے سر لیے بہ شکلِ فقیر اُٹھائے دستِ دُعا تاج ور بھی جاتے ہیں |
|
|
| نبیِّ اُمّیِ کا در ہی وہ مدرسہ ہے جہاں سنورنے سیکھنے علم و ہنر بھی جاتے ہیں |
|
|
| سب انس و جن و ملک اور سلام کرنے اُنہیں مدینہ انجم و شمس و قمر بھی جاتے ہیں |
|
|
| غُبارِ عصیاں سے اکثر اَٹے ہوئے چہرے بہ فیضِ اشکِ ندامت نکھر بھی جاتے ہیں |
|
|
| سمیٹ لینے کی لالچ میں دیکھیے اشعؔر بہت سے خواب ہمارے بکھر بھی جاتے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment