نِدا یہ آئی تھی مجھ کو وفا کیےجانا تم اپنے دشمنِ جاں کو دعا دیے جانا |
|
یہ مشغلہ بھی مرا، دوستوں کی دَین رہا جو زخم لگتے رہے ہیں، اُنہیں سیے جانا |
|
صلیبِ مفلسی، مہنگائی، گردشِ ایّام علامتیں ہیں اجل کی، مگر جئے جانا |
|
اگرچہ سہل نہ ہوگا، وہ جامِ زہر مگر شرابِ طیش کو امکان بھر پیے جانا |
|
سمجھ کے کہکشاں منزلوں کی چلتا رہا ہمارے اشکوں کو اک شخص نے دیے جانا |
|
مکان، کپڑا، عدالت، اناج اور آئین یہ سُرخیاں تھیں، جنہیں شہہ نے حاشیے جانا |
|
امیرِ کارواں اشعؔر کو دھیان میں رکھنا کسی پڑاؤ میں ہوگا، اسے لیے جانا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
نِدا یہ آئی تھی مجھ کو وفا کیےجانا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment