
| نِدا یہ آئی تھی مجھ کو وفا کیےجانا تم اپنے دشمنِ جاں کو دعا دیے جانا |
|
|
| یہ مشغلہ بھی مرا، دوستوں کی دَین رہا جو زخم لگتے رہے ہیں، اُنہیں سیے جانا |
|
|
| صلیبِ مفلسی، مہنگائی، گردشِ ایّام علامتیں ہیں اجل کی، مگر جئے جانا |
|
|
| اگرچہ سہل نہ ہوگا، وہ جامِ زہر مگر شرابِ طیش کو امکان بھر پیے جانا |
|
|
| سمجھ کے کہکشاں منزلوں کی چلتا رہا ہمارے اشکوں کو اک شخص نے دیے جانا |
|
|
| مکان، کپڑا، عدالت، اناج اور آئین یہ سُرخیاں تھیں، جنہیں شہہ نے حاشیے جانا |
|
|
| امیرِ کارواں اشعؔر کو دھیان میں رکھنا کسی پڑاؤ میں ہوگا، اسے لیے جانا |
|
|
No comments:
Post a Comment