
| تیرے دکھ پہ نہ ہوتی آنکھ نم کیا رُلا دیتا ہے پتّھر کو تو ہم کیا |
|
|
| خزاں کے پھر نہ آنے کا بھرم کیا ستم ہوگا نہ بالائے ستم کیا |
|
|
| تنفُّر اتنا کیوں بین المذاہب ہمیں بتلائیں گے دَیروحرم کیا |
|
|
| تمہاری آنکھ سے جو پی چکا ہو پھر اس کے سامنے اوقاتِ جم کیا |
|
|
| سُخن کے میرے اپنے راستوں پر نگاہِ غیر کا نقشِ قدم کیا |
|
|
| بہ ہرقیمت ہدف ہے جس کا منزل تذبذب کیا اُسے اور پیچ و خم کیا |
|
|
| خیالِ یار کی بارش ہے پیہم تو پھر دل میں سوادِ درد کم کیا |
|
|
| رقیبوں میں اُنہیں دیکھا تو بولے نہیں دیکھے ہیں خار و گل بہم کیا |
|
|
| پُجاری ہے ترا اشعؔر کہ جاناں کوئی پُوجا نہ ہو جس کی صنم کیا |
|
|
No comments:
Post a Comment