
تو جسے حرفِ وفا سے بدگماں کرجائے گا وہ دلِ ناشاد تجھ پر قرضِ جاں کرجائے گا |
|
دیکھنا وہ لے کے دل کیسا زیاں کرجائے گا زندگی کو زندگی پر نوحہ خواں کرجائے گا |
|
دھوپ میں جلتے ہوئے جب بھی مجھے دیکھے گا وہ ریشمی زلفوں کا اپنی سائباں کرجائے گا |
|
لب تو میں نے سی رکھے تھے یہ کسے معلوم تھا آپ کا پیکر مری آنکھیں زباں کرجائے گا |
|
ڈال کر وہ درمیاں چلمن پہ چلمن دیکھنا آرزوئے دید میری حرزِ جاں کرجائے گا |
|
کشتیٔ جذبات جب پائے گا وہ مغلوبِ موج اپنی بانہوں کو مثالِ بادباں کرجائے گا |
|
بس یہی کہنا ہے اشعؔر کا کتاب اندر کتاب تلخ و شیریں جو بھی ہے نذرِ جہاں کرجائے گا |
|
No comments:
Post a Comment