کسی کے دل میں لکھا حَرفِ آرزو بھی نہیں میں ایک لمحہء رفتہ کی آبرو بھی نہیں |
|
ہے آئینے کی طرح عکسِ آئینہ خاموش وہ شخص آج تو مائل بہ گفتگو بھی نہیں |
|
جب اس سے رشتہ نہ رکھا تو پھر یہ غم کیسا کہ اس کے دل میں تری کوئی جستجو بھی نہیں |
|
سراب ہے کہ نہیں وہ، پتا نہیں لیکن بجھا دے پیاس جو میری وہ آبِ جُو بھی نہیں |
|
ٹھہر تو جانا پڑے گا مجھے کہ منزل سے نظر چرائے گزر جانا میری خُو بھی نہیں |
|
یہ میرا حُسنِ نظر ہے کہ اس کا سحرِ جمال وہی نظر میں بسا ہے جو رُو بہ رُو بھی نہیں |
|
یہ مانا ہم تو بہت مضطرب رہے شب بھر پہ جس نے چین سے کاٹی وہ شخص تُو بھی نہیں |
|
یہ کیسا ظلم ہے گُل چیں کا دیکھیے اشعؔر ہمارے واسطہِ گلشن میں رنگ و بوُ بھی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
کسی کے دل میں لکھا حَرفِ آرزو بھی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment