زخموں سے مُحبّت ہے سو رویا نہیں کرتے ہم دل کا لہو اشکوں سے دھویا نہیں کرتے |
|
خاموشی کے لہجہِ میں وہ آنکھوں کی زباں سے کرتے ہیں گلہ ایسے، گویا نہیں کرتے |
|
خوابوں کا تو نْقصان ہوا ہے، مگر اس کا زانو نہ مُیسّر ہو تو سویا نہیں کرتے |
|
روکے ہوئے رکھتی ہیں جو سیلاب وہ مژگاں ماتم کی فضاء میں بھی بھگویا نہیں کرتے |
|
ہوجائے کہیں محو نہ صدیوں کی جُدائی ہم داغِ تمنّا کوئی دھویا نہیں کرتے |
|
اُلفت کا ثمر صحن میں درکار ہو جن کو نفرت وہ کبھی شہر میں بویا نہیں کرتے |
|
کیا خوب سنبھالے ہوئے رکھتی ہیں وہ جھیلیں ہم ڈوب کے ان آنکھوں میں کھویا نہیں کرتے |
|
اکثر یہی دیکھا ہے کہ اشعؔر کو کسی کا مل جاتا ہے شانہ بھی تو رویا نہیں کرتے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
زخموں سے مُحبّت ہے سو رویا نہیں کرتے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment