
| جسے بھی حُسنِ سراپا دکھائی دیتا ہے اُسے تو عشق تماشا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| ہماری ذات میں جلوہ نما ہے جس کا وجود کسی کسی کو وہ جلوہ دکھائی دیتا ہے |
|
|
| تمہاری سمت جو محفل میں دیکھتا بھی نہیں تمہارے عشق میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| وہ سادہ لوح وہ سادہ سخن وہ سادہ لباس سبھی کو انجمن آرا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| جو آنکھ موند کے رکھتے ہیں دیکھنے کے لیے نہ پوچھیے اُنہیں کیا کیا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| وہ دل جو ٹوٹا تھا مجھ سے بلا ارادہ سہی مرے ضمیر کو کعبہ دکھائی دیتا ہے |
|
|
| نظر تو عادی ہے اپنی روایتوں کی حضور نیا سُخن ہمیں کس کا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| قدسخن کی طرف ہو نظر تو اپنے سوا سبھی کا قد قدِ بالا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| تلاشِ غیر میں دیکھا ہر ایک سمت مگر ترا ہی پیکرِ یکتا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| غبارِ دل کو مرے آنسوؤں نے کیا دھویا جسے بھی دیکھوں میں اچھا دکھائی دیتا ہے |
|
|
| بحال رکھتا ہے اُمِّید، جاں بہ لب اشعؔر وہ اک سراب جو دریا دکھائی دیتا ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment