اگرچہ باطنِ روشن سیاہ کرتے رہے منافقت سے مگر سب نباہ کرتے رہے |
|
وہ خود کشی ہی تو کرتے رہے جو دانستہ جنوں کی زد پہ خِرَد کی سپاہ کرتے رہے |
|
تم عسکری ہو، نہتّوں سے ہار جاؤگے دھیان رکھنا کہ ہم انتباہ کرتے رہے |
|
اُفق کو چھونے کے قابل بنادیا جس نے اسی زمیں کو فلک سے تباہ کرتے رہے |
|
خبر تھی ہم کو زمینی حقیقتوں کی مگر سرشتِ مہر کا پھر بھی گناہ کرتے رہے |
|
وہ ہمنوا کہ جو شاعر کے ساتھ آئے تھے تھکے ہوئے تھے مگر واہ واہ کرتے رہے |
|
وہ چاہتے تھے تعلّق تمام ختم نہ ہو سو التفات بھی کچھ گاہ گاہ کرتے رہے |
|
خلوص و مہر و وفا اجنبی تھے جن کے لیے ہمیں وہ نذر کئی اشتباہ کرتے رہے |
|
یہ اور بات کہ اشعؔر بھُلا نہ پائے مگر تمہارے غم کو بھُلانے کی چاہ کرتے رہے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Friday, May 8, 2009
اگرچہ باطنِ روشن سیاہ کرتے رہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment