
کہوں میں کیسے اُسے کچھ خیال تھا ہی نہیں مرے لبوں پہ تو کوئی سوال تھا ہی نہیں |
|
|
| یہ سچ ہے میں تری محفل میں آسکا نہ مگر تو کیا سمجھتا ہے مجھ کو ملال تھا ہی نہیں |
|
|
| ہمارے زخموں کو معلوم ہے کہ پاس ترے علاج کوئی پئے اندمال تھا ہی نہیں |
|
|
| گلِے، شکایتیں، شکوے کیے تو ہوتے کبھی تمہارا کیا کوئی پُرسانِ حال تھا ہی نہیں |
|
|
| نہ ہوتا زہرِ تکبّر کا وہ شکار مگر نظر میں اس کی یہ جامِ زوال تھا ہی نہیں |
|
|
| تو کیا یہ سچ ہے کہ اک میرے دم سے پہلے یہاں تمہارے شہر میں قحط الرّجال تھا ہی نہیں |
|
|
| ہمارے آقاؐ سے پہلے تمام دنیا میں کوئی بشر بھی کہیں بے مثال تھا ہی نہیں |
|
|
| ترے سوا میں کہیں دیکھتا ہی کیا جاناں کہ تجھ سا کوئی جنوب و شمال تھا ہی نہیں |
|
|
| ذرا سا سر کو جھکانا تھا بس مگر اشعؔر سرشتِ دل میں یہ اوجِ کمال تھا ہی نہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment