کہوں میں کیسے اُسے کچھ خیال تھا ہی نہیں مرے لبوں پہ تو کوئی سوال تھا ہی نہیں |
|
یہ سچ ہے میں تری محفل میں آسکا نہ مگر تو کیا سمجھتا ہے مجھ کو ملال تھا ہی نہیں |
|
ہمارے زخموں کو معلوم ہے کہ پاس ترے علاج کوئی پئے اندمال تھا ہی نہیں |
|
گلِے، شکایتیں، شکوے کیے تو ہوتے کبھی تمہارا کیا کوئی پُرسانِ حال تھا ہی نہیں |
|
نہ ہوتا زہرِ تکبّر کا وہ شکار مگر نظر میں اس کی یہ جامِ زوال تھا ہی نہیں |
|
تو کیا یہ سچ ہے کہ اک میرے دم سے پہلے یہاں تمہارے شہر میں قحط الرّجال تھا ہی نہیں |
|
ہمارے آقاؐ سے پہلے تمام دنیا میں کوئی بشر بھی کہیں بے مثال تھا ہی نہیں |
|
ترے سوا میں کہیں دیکھتا ہی کیا جاناں کہ تجھ سا کوئی جنوب و شمال تھا ہی نہیں |
|
ذرا سا سر کو جھکانا تھا بس مگر اشعؔر سرشتِ دل میں یہ اوجِ کمال تھا ہی نہیں |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Monday, April 27, 2009
کہوں میں کیسے اُسے کچھ خیال تھا ہی نہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment