زندگی کو سہل کتنا جانِ جاں سمجھا تھا میں اک تمہارے شوق کو بس امتحاں سمجھا تھا میں |
|
اب اسے بھی کہہ نہ دیجیے گا مری دانشوری دشمنِ جاں کو ہی اب تک مہرباں سمجھا تھا میں |
|
پھر تمہی سرکار کردیتے مری کچھ رہبری جب تمہارے سنگِ در کو آستان سمجھا تھا میں |
|
ہاں وہی لمحات میرے عشق کی معراج تھے شعلہ ہائے درد کو جب سائباں سمجھا تھا میں |
|
اس نے تو میری ہر اک حدِّ تصوّر توڑ دی مہرباں کو مہرباں اتنا کہاں سمجھا تھا میں |
|
میرے بال و پر جہاں کی سیر کرتے آئے ہیں اس حدِ پرواز کوہی آسماں سمجھا تھا میں |
|
کیا مرے اندر چھپا تھا اعترافِ جرم کچھ اس کو اپنے آپ سے کیوں بدگماں سمجھا تھا میں |
|
اشعؔرِ بسمل کی خاطر پھول! حیرت ہے جناب آپ لے کر آئیں گے تیر و کماں سمجھا تھا میں |
 |
No comments:
Post a Comment