
| شمار جس کا زمانہِ سے مِہر و ماہ میں ہے وہ خوش جمال مرے مستقر کی راہ میں ہے |
|
|
| جو زخم تم نے دیا مُندَمِل کہاں ہوگا کہ اُس کی تازگی آخر مری پناہ میں ہے |
|
|
| جو میرے دل مری منزل کے درمیاں آئے وہ حوصلہ ہی کہاں عقل کی سِپاہ میں ہے |
|
|
| جَتا نہ مجھ کو کہ دستار مل چکی ہے تجھے ترا سُخن ،تری قامت ،مری نگاہ میں ہے |
|
|
| سزائے جرم تو اب بے گُناہ پائیں گے گُناہ جس نے کیا جامۂ گواہ میں ہے |
|
|
| کھنچے ہوئے چلے جاتے ہیں سب اُسی کی طرف جبھی تو کہتے ہیں لذّت بڑی گُناہ میں ہے |
|
|
| اگرچہ آخری منزل میں ہیں سفر کی مگر بڑا ہجومِ تمنّا دلِ تباہ میں ہے |
|
|
| یہ لمبے سجدے تو ہونا تھے عاجزی کے امیں مگر یہ دل تو گرفتار عز و جاہ میں ہے |
|
|
| میں جیت سکتا تھا اس سے مگر کہاں ملتا وہ رنگِ دلکشی جو صورتِ نباہ میں ہے |
|
|
| اب اتنا وقت کہاں ہے کسی کے پاس اشعؔر سنے گا کون دُہائی جو تیری آہ میں ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment