
|
|
| کبھی کبھی تو وہ کیسا کمال کرتے ہیں حدِ خیال سے بڑھ کر خیال کرتے ہیں |
|
|
| سکوں سے گزریں گے شاید اُنہی کے دن اکثر جو اپنی راتوں کو نذرِ ملال کرتے ہیں |
|
|
| کہاں سے لائیں خیالِ طرب غزل کے لیے ہمیں کہاں وہ کچھ ایسا نہال کرتے ہیں |
|
|
| دوبارہ کب کوئی خواہش لبوں پہ آئی مرے وہ کیوں سزائیں مُکرّر بحال کرتے ہیں |
|
|
| ادائیں جن کی سکھاتی ہیں سرکشی ہم کو وہی تو وحشتِ دل پائمال کرتے ہیں |
|
|
| ستم کے باب میں ان کی مثال کوئی نہیں عنایتیں بھی مگر بے مثال کرتے ہیں |
|
|
| کبھی ہنساتے ہیں بے حد کبھی رلائیں بہت وہ جینا مرنا ہمارا محال کرتے ہیں |
|
|
| لگاتے رہتے ہیں زخموں پہ بارہا نشتر مگر وہ ایسا پئے اندمال کرتے ہیں |
|
|
| جواب حضرتِ ناصح کو کیا ملے اشعؔر مرے جنوں سے خرد کے سوال کرتے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment