
|
|
| گھاٹےکا یہ بھی سودا مرا فائدہِ میں ہے گم ہوکے بھی وہ شخص مرے راستہِ میں ہے |
|
|
| آنکھیں برس چکیں تو یہ عقدہ بھی کھل گیا امکاں جو ہے سکون کا دُکھ جھیلنے میں ہے |
|
|
| رونا منافقت کا جو روتا ہے صبح و شام وہ دوست ہے سبھی کا مگر دیکھنے میں ہے |
|
|
| سبّ و شتم کا تیرے یہی ہے مرا جواب ہر انعکاسِ لفظ ترے آئینے میں ہے |
|
|
| رہتے ہیں مصلحت کے دروبام میں جو لوگ اچھّا ہے ان میں کوئی نہ کوئی بُرے میں ہے |
|
|
| مُدّت ہوئی یہ سوچتے اپنا ہے وہ کہ غیر اب بھی ہمارا ذہن اسی مخمصہِ میں ہے |
|
|
| رکھو نظر میں اک ذرا قومی وقار بھی مانا کہ چاکری ہی تمہارے بھلے میں ہے |
|
|
| کیسے یقیں نہ ہو کہ سویرا بھی آئے گا پنہاں پیامِ نور ہی شب کے دیے میں ہے |
|
|
| اشعؔر پہ کج وفائی کا شک ہے تو کیا ہوا اک نقشۂ تکون تو ہر زاویہِ میں ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment